قلعہ ڈراور کی تاریخی حیثیت

قلعہ ڈراور جٹ بھٹی راجپوت قبیلے کی تاریی عظمتوں کا امین ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق جیسل میر کے قدیم جٹ بھٹی راجپوت حاکم راول دیو راج بھٹی نے 800 عیسوی میں اس کی تعمیر کرائی۔ اس دور میں اس راجا کو راجا ڈیوا بھٹی بھی کہا جاتا تھا۔
تاریخ دانوں کے مطابق چونکہ ریاست جیسل میر اور بہاولپور ریاست کے قدیم جٹ بھٹی راجپوت حاکم راول دیو راج بھٹی نے 800 عیسوی میں اس کی تعمیر کرائی۔ اسی لیے اس کا نام دیو راول قلعہ تھا جو بگڑ کر ڈیوا راوڑ اور اب ڈیراور ہو گیا ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق شری کرشن جی مہاراج جن کا جنم چندر بنسی قبیلے میں ہوا اورچندر بنسی اصلا اور نسلا جاٹ بن سندھ بن حام بن نوح علیہ اسلام کی آل میں سے ہیں کی ہی نسل سے ایک انتہاٸی خوش بخت اور جنگجو راجا بھٹی کا جنم ہوا جو اصلاً اور نسلاُ جٹ ہی تھا مگر بعد ازاں وسیع وعریض راج پاٹ کی بدولت تاریخ میں راجپوت مشہور ھوا۔ اور اس راجا جٹ بھٹی کی نسل سے یکے بعد دیگرے کثیرالتعداد راجے مہاراجے ہوئے جن میں سے ایک راجے کا نام راول دیو راج جٹ بھٹی بھی تھا جو وادی ہاکڑہ (چولستان) کا عظیم الشان حکمران ہوگزراہے۔ اس خطے کی قدیم زبان وہی تھی جسے آج کل سراٸیکی کا نام دیا گیا ہے۔ اور سراٸیکی کے بہت سے الفاظ میں حرف” د“ عموماً حرف ”ڈ“کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً دادا سے ڈاڈا،دانت سے ڈند،درانتی سے ڈاتری ،دینا سے ڈینا ،دیوا سے ڈیواوغیرہ وغیرہ لہازہ راجا دیوا بھٹی کو راجا ڈیوا بھٹی بھی کہا جاتا تھا نیز یہانپر میں آپکو یہ بھی بتاتا چلوں کہ لفظ دیوا دراصل سنسکرت یا ہندی کے لفظ دیوتا کا اختصار ہے اور اس کی مزید مختصر صورت لفظ دیو ہے۔
چنانچہ راجا دیو نے چولستان (وادیٍ ہاکڑہ)میں جو قلعہ تعمیر کیا تھا اس دور میں اسے دیو اوور یا ڈیوا اوور کہا جاتا تھا۔”اوور“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قلعہ/کوٹ/فورٹ کے ہیں اسی طرح ڈیوا اوور سے مراد راجا ڈیوا بھٹی کا قلعہ ہے۔جو بعد ازاں قلعہ ڈیراوڑ /ڈیراول مشہور ہوا۔ (جو بعد میں راجا ڈیوا کے خاندان سے حاکم بہاولپور صادق خاں عباسی کے خاندان کی ملکیت بنا اور آج کل جس میں بہاور لپور کے حکمران عباسی خاندان کے بزرگوں کے مقبرے یا مزارات ہیں ) بالکل اسی طرح جسطرح راجا کہر یا راجا کیہار جٹ بھٹی نے اس دور میں دریاٸے بیاس اور ستلج کے سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے اس دور میں ”کہراوور“ (راجا کہر جٹ بھٹی کا قلعہ)کہا جاتا تھا جو بعد میں کہروڑ اور پھر کہروڑ پکا مشہور ہوا ۔ جیسے راجا لہو اور راجا کسو کے قلعے ”لہواوور“,”کسواوور“ بعد ازاں لاہور اور قصور مشہور ہوٸے۔
ایک اور روایت کے مطابق یہ قلعہ بھاٹی خاندان کے حکمران رائے ججہ نے نویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رائے ججہ نے اپنے بھتیجے سے اختلاف کی وجہ سے اس قلعہ کی تعمیرومرمت رکوا دی تھی۔ جس پر رائے ججہ کی بہن نے اسے سمجھایا کہ بھٹی/بھاٹی اور بھاٹیا ایک ہی قوم ہیں لہذا قلعہ کی تعمیر جاری رکھیں۔لوک روایت میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح ہوا ہے۔ رائے ججہ سائیں، تیکوں وڈی بھین سمجھاوے بھٹی تے بھاٹیا ہن ہکو کوٹ اسارن ڈے۔
1733ء میں نواب صادق محمد خان اول نے اس قلعہ کو فتح کیا۔ اگرچہ 1747ء میں جیسل میر کے راجا راول سنگھ نے اس قلعہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا لیکن 1804ء میں نواب مبارک خان نے یہ دوبارہ حاصل کر لیا۔
اس کے بعد سے یہ بہاولپور کے حکمرانوں کی شاہی رہائش گاہ بنارہا۔ نوابوں کے مختلف ادوار میں اس قلعہ کی وقتا فوقتا مرمت اور تزین و آرائیش کی جاتی رھی لیکن ریاست کا دار الحکومت بہاولپور بننے سے آہستہ آہستہ اس پر بعد میں آنے والے حکمرانوں کی توجہ کم ہوتی گئی اور اب یہ قلعہ بہت خستہ حالت میں بدلتا جا رہا ہے۔ قلعہ ڈیراور کے اردگرد کئی آثار قدیمہ کے مقامات ہیں جو وادی سندھ کی تہذیب سے بھی پرانے ہیں لیکن آج تک یہاں پر کھدائی نہیں ہو سکی۔قلعہ کے ساتھ واقع تالاب کے بارے میں کہا جاتا کہ اس کی تہ پیتل کی دھات سے بنائی گئی ہے تاکہ بارش کا پانی صحرا میں جذب نہ ہو سکے۔ قلعہ کے پاس ہی لال قلعہ دہلی کی موتی مسجد کی طرز پر بنائی گئی شاہی مسجد قلعہ کی شان اور خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔
قلعہ میں خفیہ سرنگوں کا ایک جال بھی بچھایا گیا تھا جو جنگ کی صورت میں خفیہ راستے کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ لیکن اب سکیورٹی خدشات کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان سرنگوں کو بند کروا دیا ہے۔ صدر لوک سیوا وارث ملک کے مطابق قلعہ ڈیراور میں دفاتر، قید خانہ، پھانسی گھاٹ، رہائش گاہیں اور پانی کا کنواں جو تالاب سے جڑا ہوا تھا، موجود تھے۔ اس قلعہ میں نواب صاحب اپنے درباریوں کے ساتھ کھلا دربار منعقد کرتے تھے اور سزاوں کے احکامات جاری کرتے تھے۔
یہ قلعہ چولستان جیپ ریلی کا اختتامی پوائنٹ بھی ہے۔ جس کی وجہ سے کافی ملکی اور غیر ملکی سیاح اس تاریخی مقام کی سیر بھی کرتے ہیں۔